میری آواز ہی پہچان ہے

میری آواز ہی پہچان ہے

قدرت کی صناعی میں کیا خوب کاریگری ہے آواز۔کبھی اپنے گردو پیش میں محسوس کریں،کتنی ہی طرح کی آوازیں ہمیں گھیرے ہوئے ہیں۔صبحِ صادق میں پرندوں کی پھڑپھڑاہٹ اور چہچہاہٹ سے لے کر ناشتے کی میز پر بجتے برتنوں کا شور ،سکول،دفتر یا کاروبار پر جاتی موٹر کاروں،رکشوں اور بسوں کا شور،ریڑھی بان یا بھکاری کی صدا،حجام کی دکان پر بجتا ٹیپ ریکارڈر ،نل سی بہتے پانی کی آواز،بچے کے بلکنے کی آواز ہو یا اماں کے چِلانے کی صدا،ان سب آوازوں کے بغیر ہمارا روزنامچہ ادھورا ہے۔

https://soundcloud.com/simplysanju/gulzars-poetry-on-naam-gum-jayega

اِن آوازوں کی اپنی ساخت اور بناوٹ ہےکچھ آوازیں آپ کے بزرگوں کی طرح شفیق ہونگی اور کچھ موسیقی کی طرح دلفریب اور لبھاتی ہوئی،کچھ ناگوار،کرخت،بھدی اور بے سُری

بہرحال آواز،نِدا یا صوت،ہوا کی حرکت کرتی ہوئی لہروں کا نام ہے۔

ہر علاقے،خطے،موسم غرض کہ گھروں کی اپنی آوازیں ہوتی ہیں۔جو اپنی پن یا اجنبیت کا احساس دلاتی ہیں جیسے دیارِغیر میں غیر مانوس آوازیں۔یا کسی پہاڑی علاقے میں درختوں سے گزرتی ہوا کی سرسراہٹ،یا کسی جھرنے یا آبشار کی بازگشت

کسی کارخانے میں چلتی مشینوں کی گڑگڑاہٹ ہو یا کسی مزار سے آتی ہوئی قوالی کی تان۔یہ سب شعوری یا لاشعوری طور پر اپنا تاثر چھوڑ جاتی ہیں۔چاہے آپ ان پر کان دھریں یا نہ دھریں یہ ہمارے ماحول کا ،معمول کا حصہ ہیں۔

ان آوازوں کی اپنی زبان،لہجہ،اُنسیت یا وابستگی ہوتی ہے۔کچھ آوازیں آپ کے لاشعور میں بستے واقعات سے جڑی ہوتی ہیں

۔آواز کو تعلیم کے شعبے میں اہم مقام حاصل ہے۔بہت سی صوتی آلوں اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ان آوازوں کو بروئے کار لایا جا سکتا ہےجوکہ درس و تدریس میں ایک اہم سنگِ میل ہو سکتے ہیں۔ایسے بہت سے سوفٹ وئرز ہیں جن سے آوازیں ریکارڈ کر کے رابطہ اور ابلاغ ممکن ہے۔

طارق عزیز کا یہ تاریخی جملہ “آواز بیچتا ہوں اور پیٹ پالتا ہوں” ہر اُس شخص کو یاد ہو گا جو ریڈیو پاکستان راولپنڈی گیا ہو یا وہاں کام کیا ہو۔

چھوٹی موٹی ریکارڈینگ اور تصویر کشی سے آگاہی تو تھی

پر محض آواز پر کو استعمال کرنا ایک تجربہ تھا۔منوں بھائئ کی ایک پنجابی نظم کانوں کو بھلی لگی سوچا اسی پر طبع آزمائی کی جائے۔ساتھ میں پنجاب کی بانسری کی دُھن کا امتزاج کیا گیا ہے۔iMovie استعمال کرتے ہوئے ایک فکر،سوچ اور نظریے کا اظہار

Leave a comment